شعر

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر فتنہ

شعر

ایک چہرے سے اُترتی ہیں نقابیں کتنی
لوگ کتنے ہمیں اک شخص میں مل جاتے ہیں
وقت بدلے گا تو اس بار میں پوچھوں گا اُسے
تم بدلتے ہو تو کیوں لوگ بدل جاتے ہیں

شعر

اُسے نہ یاد کرنے کی قسم کھاتا تو ہوں محسن
ٹپک پڑتے ہیں پھر آنسو قسم پھر ٹوٹ جاتی ہے

شعر

اذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اُتار کر وہ
بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے

شعر

اُن کو ناموس بھی عزت بھی پزیرائی بھی
ہم کو رونے کو میسر نہیں تنہائی بھی
اپنے ہی حال پہ ہنسنسا کبھی ہنس کر رونا
میں بیک وقت تماشا بھی تماشائی بھی

شعر

اک شخص کی چاہت کا ارمان رہا اکثر
جو جان کے سب کچھ بھی انجان رہا اکثر

شعر

اک تناسب سے مجھ کو ملتا ہے رزق ہے ماں کا پیار تھوڑی ہے چھوڑ کر مجھ کوجا بھی سکتا ہے یار ہے یار غار تھوڑی ہے

شعر




No comments:

Post a Comment