اردوشاعری





علامہ محمداقبالؒ

سحر




جن کے ہاتھوں میں صداقت کے الم ہوتے ہیں

طے شدہ بات ہے تعداد میں کم ہوتے ہیں



احمد ندیم قاسمی

1

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

2

میں شکار ہوں کسی اور کا مجھے مارتا کوئی اور ہے

مجھے جس نے بکری بنا دیا وہ تو بھیڑیا کوئی اور ہے

کئی سردیاں بھی گزر گئیں میں تو اس کے کام نہ آ سکا

میں لحاف ہوں کسی اور کا مجھے اوڑھتا کوئی اور ہے

مجھے چکروں میں پھنسا دیا مجھے عشق نے تو رلا دیا

میں تو مانگ تھی کسی اور کی مجھے مانگتا کوئی اور ہے

میں ٹنگا رہا تھا منڈیر پر کہ کبھی تو آئے گا صحن میں

میں تھا منتظر کسی اور کا مجھے گھورتا کوئی اور ہے

سر بزم مجھ کو اٹھا دیا مجھے مار مار لٹا دیا

مجھے مارتا کوئی اور ہے ولے ہانپتا کوئی اور ہے

مجھے اپنی بیوی پہ فخر ہے مجھے اپنے سالے پہ ناز ہے

نہیں دوش دونوں کا اس میں کچھ مجھے ڈانٹتا کوئی اور ہے

میں تو پھینٹ پھینٹ کے پھٹ گیا میں پھٹا ہوا وہی تاش ہوں

مجھے کھیلتا کوئی اور ہے مجھے پھینٹتا کوئی اور ہے

مرے رعب میں تو وہ آ گیا مرے سامنے تو وہ جھک گیا

مجھے لات کھا کے ہوئی خبر مجھے پیٹتا کوئی اور ہے

ہے عجب نظام زکوٰۃ کا مرے ملک میں مرے دیس میں

اسے کاٹتا کوئی اور ہے اسے بانٹتا کوئی اور ہے

جو گرجتے ہوں وہ برستے ہوں کبھی ایسا ہم نے سنا نہیں

یہاں بھونکتا کوئی اور ہے یہاں کاٹتا کوئی اور ہے

عجب آدمی ہے یہ قاسمیؔ اسے بے قصور ہی جانئے

یہ تو ڈاکیا ہے جناب من اسے بھیجتا کوئی اور ہے

3

انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں

تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی

یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں

تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں

مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا

اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر

عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آئنہ خانوں پہ زد پڑی

اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا

حیران ہوں کہ وار سے کیسے بچا ندیمؔ

وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا

متفرق

1

اے یار دوستی کے شب روز کیا ہوئے
برسات کی ندی تھی جو چڑھ کر اتر گئی
چہرے پہ پرفریب تبسم ہے آج کل
تیری وہ پرخلوص محبت کدھر گئی

2

اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے

دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے

سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی

تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے

دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا

دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں

تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے

جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے

یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے

مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری

یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے

گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ

یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے

No comments:

Post a Comment