غزل

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اُسے بھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ جو نہیں ملا اُسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تیری آس تیرے گمان میں
صبا کہ گئی میرے کان میں میرے ساتھ آ اُسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تُجھے زندگی نے بُھلا دیا تو بھی مسکرا اُسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر میری بات سن اُسے بھول جا اُسے بھول جا

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment