انوؔر مسعود

نعت


عطا ہوئے جو مروت کے اس کو پیرائے زبان حق سے وہ خلق عظیم کہتا ہے

حریف راہ میں کانٹے بچھانے آئے اور اس نے ان پر دعاوں کے پھول برسائے

اسے جو لوگ ستاتے ہوئے نہ ڈرتے تھے امانتیں بھی اسی کے سپرد کرتے تھے

وہ چاہتا تھا راہ و رسم زندگی بدلے بگڑ گیا تھا جو انداز بندگی بدلے

بھٹک رہا تھا جو اسلوب آگہی بدلے اسے یہ دھن تھی کہ اندر سے آدمی بدلے

وہ دور حضرت گردوں رقاب کیا کہنے وہ انقلاب سعادت مآب کیا کہنے

انوؔر مسعود

شعر:1


اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار

چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹئنکل لٹل اسٹار

انوؔر مسعود

شعر:1


ان کے بغیر فصل بہاراں بھی برگریز

وہ ساتھ بیٹھ جائیں تو رکشہ مرسڈیز

یہ باہمی کشش کا کرشمہ ہے دوستو

رشوت ہمیں عزیز ہے رشوت کو ہم عزیز

انوؔر مسعود

خبریں


وزیر خارجہ ترکی کے دورے پر ہیں کل سے

گھروں میں گیس کی بندش مسلسل ہو گئی ہے

کوئی خطرہ نہیں ہے آمریت کا وطن میں

نصیبو لال کی البم مکمل ہو گئی ہے

انوؔر مسعود

ہاتھ دھونے کا عالمی دن


میں نے اس پر عمل کیا فوراً اتنا ستھرا تھا مشورہ گویا

ہاتھ دھونے کا عالمی دن تھا اس لیے میں نے منہ نہیں دھویا

انوؔر مسعود

مٹی پاؤ


ان پہ مٹی ضرور ڈالیں گے جو مسائل بھی سر اٹھائیں گے

سوچتا ہوں کہ چودھری صاحب اتنی مٹی کہاں سے لائیں گے

انوؔر مسعود

مسائل


ہم کو در پیش ہیں اب اتنے مسائل انوؔر

ان گننے بھی جو بیٹھیں تو زمانے لگ جائیں

کوئی تدبیر اسی ایک پریشانی کی

یہ جو بکھرے ہوئے شاپر ہیں ٹھکانے لگ جائیں

انوؔر مسعود

درزی کی بدحواسی


بخیہ تو اس سے ایک بھی سیدھا نہیں لگا

آڑہ لگا دیا کوئی ترچھا لگا دیا

ٹیلر کی بدحواسیاں مجھ سے نہ پوچھیے

اس نے میری قمیض میں نیفہ لگا دیا

انوؔر مسعود

قربانی کا اجر


اس عید پہ قربان کیا میں نے جو دنبہ

اس نیک عمل کا میرے مولا مجھے پھل دے

یارب میں نہیں اور کسی چیز کا طالب

جتنا بھی ثواب اس کا ہے ڈالر میں بدل دے

انوؔر مسعود

جمہوریت


ووٹوں سے کہ لوٹوں سے کہ نوٹوں سے بنے ہیں

یہ راز ہیں ایسے جنہیں کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک ظرز حکومت ہے کہ جس میں

اند کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے

انوؔر مسعود

آمریت


امریکہ سے جو روشنی آتی پیہم ہم اس پہ دل و جاں سے فدا ہوتے رہے ہیں

کیا اس میں کوئی شک ہے ایوب سے اب تک ہم لوگ مشرف بہ ضیاء ہوتے رہے ہیں

انوؔر مسعود

فوٹو گرافر


بھولے سے ہو گئی ہے اگر چہ یہ اس سے بات

ایسی نہیں یہ بات جسے بھول جائیے

ہے کس بلا کا فوٹو گرافر ستم ظریف

میت سے کہ رہا ہے ذرا مسکرائیے

انوؔر مسعود

خودی اور سیلفی


قربان جاؤں ان کے لسانی شعور کے مفہوم ایک لفظ کا جو بھی سمجھ لیا

انوؔر میرے وطن کے جوانوں نے آجکل اقبال کی خودی کو بھی سیلفی سمجھ لیا

انوؔر مسعود

ایک معزز خاتون کی معزز مرد سے گفتگو


لوگ تو رہتے ہیں ہر لمحے ٹوہ میں ایسی باتوں کی

پیار محبت کے ہیں دشمن دل کے ایسے کالے ہیں

دیکھیے کچھ محتاط ہی رہیے اس جاسوس زمانے سے

میں بھی بچوں والی ہوں اور آپ بھی بچوں والے ہیں

انوؔر مسعود


کرپشن


یہی تو دوستو لے دے کے میرا بزنس ہے تمہی کہو کہ میں کیوں اس سے توڑ لوں ناطہ

کروں گا کیا جو کرپشن بھی چھوڑ دی میں نے مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

انوؔر مسعود

انشورنس ایجنٹ کی گفتگو


آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اندیشوں کو

اس خدمت میں سب سے بڑھ کر روشن نام ہمارا ہے

خاصی دولت مل جائے گی آپ کے بیوی بچوں کو

آپ تسلی سے مر جائیں باقی کام ہمارا ہے

انوؔر مسعود

نان کمٹمنٹ


جنت سے نکالا ہمیں گندم کی مہک نے گوندھی ہوئی گئیہوں کہانی ہے ہماری

روٹی سے ہمیں رغبت دیرینہ ہے انوؔر یہ نان کمٹمنٹ پرانی ہے ہماری

انوؔر مسعود

راز کی باتیں


کبھی ہو گیا میسر نہ ہوا کبھی میسر سر عام کیا کہوں میں کہ یہ راز کی ہیں باتیں

کبھی میں نے کش لگایا کبھی کش نہیں لگایا اسی کش مکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں

انوؔر مسعود

یلغار وقت


برپا کیے وہ دور زماں نے تغیرات گاڑی نئی تھی جس کا کھٹارا بنا دیا

چھوڑا نہیں کسی کو بھی یلغار وقت نے آخر کھجور کو بھی چھوارا بنا دیا

انوؔر مسعود

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے


اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے

وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے

کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے

مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے

ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے

ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے

تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا

ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے

تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی

تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے

انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر

جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے

چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ

نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے

انوؔر مسعود

اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے


اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے

دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے

سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی

تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے

دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا

دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں

تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے

جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے

یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے

مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری

یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے

گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ

یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے

انوؔر مسعود

ویٹو


تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے

اب اس لاٹھی کی زد پر جو بھی آئے سو ہمارا ہے

مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے

تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے

انوؔر مسعود

میری عینک


لطف نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے یہ نہ ہو پاس تو پھر رونق دنیا کیا ہے

تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتی ہیں میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

انوؔر مسعود

دور کی عینک


نزدیک کی عینک سے اسے کیسے میں ڈھونڈوں

جو دور کی عینک ہے کہیں دور پڑی ہے

انوؔر مسعود

مختصر قطعہ


موٹے شیشوں کی نا ٓک پر عینک

کان میں آلہ سماعت ہے

منہ میں مصنوعی ایک بتیسی

چوتھے مصرعے کی کیا ضرورت ہے

انوؔر مسعود

No comments:

Post a Comment