ہمالہ


اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں

تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں

ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے

امتحان دیدئہ ظاہر میں کوہستاں ہے تو

مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو

برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر

تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن

چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن

چشمہ دامن ترا ئنہ سےال ہے

ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے

اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی ، جسے

ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر

جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی

یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی

کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا

آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی

آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی

چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو

لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا

وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا

کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر

اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا

کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں

تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے

پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندستاں ہے تو

سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو

خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر

وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن

تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن

دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے

تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے

دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے

فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر

جھومتی ہے نشہ ہستی میں ہر گل کی کلی

دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی

کنج خلوت خانہ قدرت ہے کاشانہ مرا

کوثر و تسنیم کی موجوں کی شرماتی ہوئی

سنگ رہ سے گاہ بچتی ، گاہ ٹکراتی ہوئی

اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو

دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا

وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا

خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر

مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا

داغ جس پر غازئہ رنگ تکلف کا نہ تھا

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

No comments:

Post a Comment