گل رنگیں
تو شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہیں
زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
آہ! یہ دست جفاجو اے گل رنگیں نہیں
کام مجھ کو دیدئہ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا
سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
مطمئن ہے تو ، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھائوں کہ میں گلچیں نہیں
دیدئہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
رشک جام جم مرا آ ینہ حیرت نہ ہو
توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے
No comments:
Post a Comment