متفرق اردو اشعار

شعر

یوں ہی رنجشوں میں گزر گئے کبھی میں خفا کبھی وہ خفا
وہی منزلیں وہی راستے نہ اُسے خبر نہ مجھے پتہ
کبھی اپنی اپنی انا میں گم کبھی میں جُدا کبھی وہ جُدا

افتخار ٹھاکر

شعر

رسمِ اُلفت ہے کہ ملتے ہیں بچھڑنے کے لیے
ایسے مت چاہو کہ جدائی کی روایت نہ رہے

شعر

لو چل دیے ہو ہم کوتسلی دیے بغیر
اک چاند چھپ گیا ہے اجالا کیے بغیر

شعر

رسم الفت ہی اجازت نہیں دیتی ورنہ
ہم بھی ایسا تمہیں بھولیں کہ صدا یاد کرو

شعر

واعظ سے کہو کہ وہ فقیروں سے نہ الجھے
قانون خرد اور ہے آئین جنوں اور

شعر

ہزار سجدے تو کر چکا ہوں قضا تمہاری محبتوں میں
میں اب دکھاوے کا کوئی سجدہ ادا کروں گا تو کیا کروں گا

شعر

یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا میرے یار سمجھتے ہیں مجھے

شعر

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

شعر

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

شعر

رودادِ چمن دونوں سناتے تو ہیں لیکن
کانٹوں کا بیاں اور ہے پھولوں کا بیاں اور

شعر

اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے
جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا

شعر

اس جہاں میں کب کسی کا درد اپناتے ہیں لوگ
رخ ہوا کا دیکھ کر اکثر بدل جاتے ہیں لوگ

شعر

یہ میاں اہل محبت ہیں انیہں کچھ نہ کہو
یہ بڑے لوگ ہیں بچوں کی طرح سوچتے ہیں

شعر

بڑے کم نظر تھ گنہگار تھے ہم
مگر تیرے دل کو لبھاتے رے ہیں
یہی سوچ کر تم بھلا دو خطائیں
تمہیں ہم بہت یاد آتے رہے ہیں

شعر

مطلب یہ کہ بھولا نہیں ہوں
یہ بھی نہیں کہ یاد آتے ہو
پہلے سب سے پہلے تم تھے
اب تم سب کے بعد آتے ہو

گیت

جب رات میں جگنو کو چمکتے ہوئے دیکھوں
بھنوروں کو جو پھولوں پہ مچلتے ہوئے دیکھوں
پروانوں کو جب شمع پہ جلتے ہوئے دیکھوں
تجھے دل یاد کرے تیری فریاد کرے
دن تیرے انتظار میں کٹ کٹ کے گزر جائے
راتوں کو یاد چاندنی بن بن کے بکھر جائے
دیکھوں اگر تجھے تو میری سانجھ سنور جائے
تیرے قریب آ کے حسن اور نکھر جائے
بادل میں کبھی چاند کو چھپتے ہوئے دیکھوں
تاروں ٹمٹما کے جھمکتے ہوئے دیکھوں
ہر اور چاندنی کو چھٹکتے ہوئے دیکھوں
تجھے دل یاد کرے تیری فریاد کرے
آ جا کے آبھی جا کے تیری یاد آ رہی ہے
معصوم آرزو کی کلی مسکرا رہی ہے
خوشبو کسی کے لمس کی مجھ کو لبھا رہی ہے
جیسے محبتوں کے فضا گیت گا رہی ہے
دوپہر میں جب ریت کو تپتے ہوئے دیکھوں
موجوں کو بے قرار ابلتے ہوئے دیکھوں
چنگاری کو شعلوں میں بدلتے ہوئے دیکھوں
تجھے دل یاد کرے تیری فریاد کرے
جب بھی یہ سوچتا ہوں تیری یاد اب نہ آئے
خود سے ہی پوچھتا ہوں تجھے کیسے دل بھلائے
شکوہ نہیں ہے تجھ سے نہ تجھ سے کوئی گلہ ہے
تجھ سے زیادہ مجھ کوبھلا کون چاہتا ہے
دھرتی کو آسمان سے ملتے ہوئے دیکھوں
بلبل کو آشیاں میں چہکتے ہوئے دیکھوں
موسم کو بھی انداز بدلتے ہوئے دیکھوں
تجھے دل یاد کرے تیری فریاد کرے

لتا حیا

No comments:

Post a Comment