سید سلمان گیلانی


دیکھ کر داڑھی میری تو مجھے مُلا نہ سمجھ

میرے سر میری ٹوپی کے اضافے کو نہ دیکھ

ظاہری حلیہ میرا تک کے پریشان نہ ہو

میرے مضمون کو پڑھ میرے لفافے کو نہ دیکھ

سید سلمان گیلاؔنی


ٹخنوں سے میری اس لیے شلوار ہے اونچی

پیدل چلوں جب میں تو نہ ہوں پائینچے گندے

فیشن زدہ لڑکی سے نہ کر میرا تقابل

اس کے تو یہ لڑکوں کو پھنسانے کے ہیں پھندے

سید سلمان گیلاؔنی


برلاس نے بلایا تو پھر لاس کب رہا

اندیشہ لاس کا تو بیک آن مٹ گیا

بحران سا تھا طبع پہ ہوتے نہیں تھ شعر

بحرین دیکھ کر میرا بحران مٹ گیا

سید سلمان گیلاؔنی


کچھ کہتے ہیں چاند نہیں نکلا نکلا نہیں تو کل عید نہیں

چاند اپنی آنکھ سے دیکھا ہے پشاور میں کوئی کہتا ہے

اے چاند کمیٹی والو تم کیوں چاند فلک پر ڈھونڈتے ہو

میرے سامنے والی کھڑکی میں اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے

افوس کمیٹی والوں سے وہ اکھڑا اکھڑا رہتا ہے

سید سلمان گیلاؔنی


بکرا خریدا قربانی کے لیے گانوں کی وہ دُھن پہ تھا جھومتا بڑا

لے گیا کلیجی کوئی پھیپھڑے کوئی سری ، پائے ، گردے قصائی لے گیا

دل تھا پسند مجھے میں نے لیا رکھ بکرے کی آنے لگی غیب سے صدا

اک پردیسی میرا دل لے گیا جاتے جاتے میٹھا میٹھا غم دے گیا

سید سلمان گیلاؔنی


لندن سے آئی بھاگاں بولی یہ ڈاکٹر سے بےبی کو خبرے کیا ہے ہر وقت ویپتا ہے

کوئی پرابلم ہے پر ہے پس اس کے ڈھڈھ میں کہ نہ کچھ ڈرنکتا ہے نہ ہی کچھ یہ ایٹتا ہے

پچھلے کئی ڈیئُوں سے نیندر ہے اس کی غائب ڈے نائٹ میں مساں یہ گھنٹہ سلیپتا ہے

سید سلمان گیلاؔنی


میری زباں گئی پھسل ہنسی ہنسی میں ایک دن

کہ اُس کو کہ دیا چَوَل ہنسی ہنسی میں ایک دن

کسی کی ایک وائف اور کسی کی ایک بھی نہیں

میں لے اُڑا ڈبل ڈبل ہنسی ہنسی میں ایک دن

یہ کہہ کہ بھوک کی کمی کا عارضہ ہے آج کل

پراٹھے چھ گئی نگل ہنسی ہنسی میں ایک دن

جو تم نے چپکے چپکے آ کے کان میں ہَوو کیا

میرا تو دل گیا دہل ہنسی ہنسی میں ایک دن

وہ از راہ مزاق ایک شعر پڑھ کے پھنس گئی

سنا دی میں نے سو غزل ہنسی ہنسی میں ایک دن

لمبوترا سا منہ کلے بھی اونٹ سی ہے ہو بہو

سو میں نے کہ دیا جمل ہنسی ہنسی میں ایک دن

وہ اپنے ڈیل ڈول سے پہاڑ سی لگی مجھے

سو میں نے کہ دیا جبل ہنسی ہنسی میں ایک دن

سید سلمان گیلاؔنی


نہ جانے کیا خطا ہو گئی کہ بدلا ہے موڈ تیرا

نہ سیدھے منہ تو بات کرے میں منتیں ہزار کروں

وہ ہی تو ہوں میں دوست تیرا سناتی تھی تو روز جسے

تمہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں

میرے محبوب تیری جب سے چھنی ہے کرسی

مجھ کو سب باتیں تیری لگنے لگیں اوٹ پٹانگ

اب تیرے ماس نہ بنگلہ ہے نہکوٹھی ہے نہ کار

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

سید سلمان گیلاؔنی


کیوں لیا تھا میرا دل دل مجھے واپس کر دے

چھوڑ یہ روز کی کل کل مجھے واپس کر دے

اچھی مس ہے کوئی مس کال نہ میسج کوئی

اپنی سم لے لے موبائل مجھے واپس کر دے

لینڈ لائین سے کیا کرتی تھی کیوں غیر کو فون

جو ادا میں نے کیے بل مجے واپس کر دے

میٹرک میں تجھے اس شرط پہ ہی دی تھ ادھار

ماسٹر کر لے تو پینسل مجھے واپس کر دے

اک صنم مانگا تھا گیلاؔنی نے یارب نہ دیا

وہ تہجد کے نوافل مجھے واپس کر دے

سید سلمان گیلاؔنی


حسد کی کیوں آگ تیرے دل میں بھڑک رہی ہے دہک رہی ہے

میری خطا کیا اگر پڑوسن لہک رہی ہے چہک رہی ہے

مجھے تمنا اے عقد ثانی ہے جھوٹ ہے میری جاں سراسر

نہ جانے کن پھپھے کٹنیوں کی تو سن کے باتیں بہک رہی ہے

نکاح کے روز جس سے تو نے رنگا تھا بالوں کو اپنے بیگم

ہمارے سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے

سید سلمان گیلاؔنی


عجب فیشن ہے کپڑے چھوٹے چھوٹے ہوتے جاتے ہیں

غرارے جانگیے لہنگے لنگوٹے ہوتے جاتے ہیں

یہ مت سمجھو کہ ہم کھا کھا کے موٹے ہوتے جاتے ہیں

وطن کی فکر میں گھل گھل کے چوٹے ہوتے جاتے ہیں

چلاتے ہیں وہ جب تیغِ نگاہ و خنجرِ ابرو

جوانوں کے جو دل ہیں ٹوٹے ٹوٹے ہوتے جاتے ہیں

تیری رنگت بھی گوری ہے تیرا شوہر بھی چٹا ہے

مگر بچے یہ کیوں کالے کلوٹے ہوتے جاتے ہیں

رواج اب پل رہا ہے ٹشؤوں کا واش روموں میں

سیاستدان لیکن پھر بھی لوٹے ہوتے جاتے ہیں

بہت تکلیف دہ پہلے پہل لگتے تھے گیلاؔنی

کمر پر سہل اب بیگم کے سوٹے ہوتے جاتے ہیں

سید سلمان گیلاؔنی


کرینہ ہو کرشمہ ہو ایشوریا ہو کہ مادھوری

نہ شک کر دیکھ کر بٹوے میں میرے ان کی تصویریں

میں اس نیت سے ان کو دیکھتا ہوں غور سے بیگم

نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

سید سلمان گیلاؔنی


کچھ تالیاں بجائیے کچھ مسکرائیے ہیں آپ ادب شناس تو آگاہ کیجیے

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں شاعر کو مست کیجیے واہ واہ کیجیے

سید سلمان گیلاؔنی


میں اپنے قہقہے دنیا کو دے کر خود اپنے غم چھپانا چاہتا ہوں

رُلایا ہے بہت دنیا نے مجھ کو میں دنیا کو ہنسانا چاہتا ہوں

سید سلمان گیلاؔنی


اچانک اس نے رخ سے جب نقاب لفٹ کر دیا

تو میں نے آگے بڑھ کے اپنا ہارٹ گفٹ کر دیا

مجھے تو اس کو پہلی بار دیکھ کے گماں ہوا

خدا نے جیسے چاند کو زمیں پہ شفٹ کر دیا

سید سلمان گیلاؔنی


میں اردو میڈیم تھا وہ انگریزی دان تھی

سب توڑ کر وہ پیار کے بندھن چلی گئی

میں لینگویج کا کورس یہاں سیکھتا رہا

گورے سے شادی کر کے وہ لندن چلی گئی

سید سلمان گیلاؔنی


ہے تو فیمیل میل لگتی ہے یعنی قدرت کا کھیل لگتی ہے

میرے بچپن کی جو سہیلی تھی آج کل وہ سہیل لگتی ہے

اتنے میک اپ کے بعد اُف توبہ جان من تو چڑیل لگتی ہے

سید سلمان گیلاؔنی


اُس شوخ سے جو میں نے کہا جانِ من سنو

حج کر کے آیا ہوں مجھے حاجی کہا کرو

وہ بولی حج کا اب یہ تقاضا ہے حاجی جی

اب جان من نہیں مجھے باجی کہا کرو

سید سلمان گیلاؔنی

No comments:

Post a Comment