جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے ۔۔۔ تو کیا ہُوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا
آنکھوں کا رنگ بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
کُچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہوا کہ خُود میرا چہرا بدل گیا
جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہواجو ہم سے زمانہ بدل گیا
قدموں تلے جو ریت بچھی تھی ، وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ہاتھ تو ، صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا
اِک سر خوشی کی موج نے کیسا کیا کمال
وہ بے نیاز سارے کا سارا بدل گیا
اُٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا
حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا مکان کا نقشہ بدل گیا
شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا
قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیرکھو گئی کبھی سَپنا بدل گیا
منظر کا رنگ اصل میں سایہ تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا
اندر کے موسموں کی خبر اُس کو ہو گئی
اُس نو بہارِ ناز کا چہرہ بدل گیا
آنکھوں میں جتنے اشک تھے ، جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا ، اور میری دُنیا بدل گیا
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھو نڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
No comments:
Post a Comment