شعر
سزا یہ پیار کی یوں بے مثال دی اُس نے
اُداس رہنے کی عدت سی ڈال دی اُس نے
کہ جب اپنا بنانے کی بات کی میں نے
یہ بات باتوں ہی باتوں میں ٹال دی اُس نے
اُداس رہنے کی عدت سی ڈال دی اُس نے
کہ جب اپنا بنانے کی بات کی میں نے
یہ بات باتوں ہی باتوں میں ٹال دی اُس نے
شعر
مجھے بار بار صدا نہ دے میری حسرتوں کو ہوا نہ دے
میرے دل میں آتش عشق ہے میری آگ تجھ کو جلا نہ دے
میرے دل میں آتش عشق ہے میری آگ تجھ کو جلا نہ دے
شعر
اک شخص کی چاہت کا ارمان رہا اکثر
جو جان کے سب کچھ بھی انجان رہا اکثر
جو جان کے سب کچھ بھی انجان رہا اکثر
شعر
معزز بن کے محفل میں ادا کاری نہیں کرتا
میں چہرے پر کبھی جھوٹی انا کاری نہیں کرتا
مِرا دشمن مِرے دستور سے واقف نہیں شاید
میں جس کو دوست کہہ دوں اُس سے غداری نہیں کرتا
مجھے موقع شناسی کا ہنر آیا نہیں اب تک
جہاں مطلب نکلتا ہو سمجھ داری نہیں کرتا
میں چہرے پر کبھی جھوٹی انا کاری نہیں کرتا
مِرا دشمن مِرے دستور سے واقف نہیں شاید
میں جس کو دوست کہہ دوں اُس سے غداری نہیں کرتا
مجھے موقع شناسی کا ہنر آیا نہیں اب تک
جہاں مطلب نکلتا ہو سمجھ داری نہیں کرتا
شعر
مت دیکھ کوئی شخص گنہگار ہے کتنا
یہ دیکھ تیرے ساتھ وفا دار ہے کتنا
یہ دیکھ تیرے ساتھ وفا دار ہے کتنا
شعر
کیوں چھوڑا تم نے ساتھ ہمارا جواب دو
خاموش کس لیے ہو خدارا جوب دو
موسم بھی اتنی جلد بدلتا نہیں تو پھر
بدلا ہے کیسے رنگ تمہارا جوب دو
خاموش کس لیے ہو خدارا جوب دو
موسم بھی اتنی جلد بدلتا نہیں تو پھر
بدلا ہے کیسے رنگ تمہارا جوب دو
شعر
ہم وہ ساقی ہیں جو دیوانہ بنا دیتے ہیں
جام خالی ہو تو آنکھوں سے پلا دیتے ہیں
جام خالی ہو تو آنکھوں سے پلا دیتے ہیں
شعر
جب میں بچہ تھا تو اکثر کھلونے ٹوٹ جاتے تھے
مِرے رونے پہ ماں آ کر کھلونے جوڑ دیتی تھی
سُنا ہے ماں سے بھی زیادہ تجھے الفت ہے بندوں سے
تو آ کر جوڑ دے یارب میں خود کو توڑ بیٹھا ہوں
مِرے رونے پہ ماں آ کر کھلونے جوڑ دیتی تھی
سُنا ہے ماں سے بھی زیادہ تجھے الفت ہے بندوں سے
تو آ کر جوڑ دے یارب میں خود کو توڑ بیٹھا ہوں
شعر
اُسے نہ یاد کرنے کی قسم کھاتا تو ہوں محسن
ٹپک پڑتے ہیں پھر آنسو قسم پھر ٹوٹ جاتی ہے
ٹپک پڑتے ہیں پھر آنسو قسم پھر ٹوٹ جاتی ہے
شعر
کچھ عجب طرح سے کی اپنی وکالت میں نے
رکھا نہ لب پہ حرف وضاحت میں نے
آپ تھک جائیں گے زخموں پہ نمک رکھ رکھ کے
درد سہنے کی بہت کی ہے ریاضت میں نے
رکھا نہ لب پہ حرف وضاحت میں نے
آپ تھک جائیں گے زخموں پہ نمک رکھ رکھ کے
درد سہنے کی بہت کی ہے ریاضت میں نے
شعر
جی تو چاہتا ہے کبھی آگ لگا کر دل کو
خود کہیں دور کھڑا ہو کے تماشا دیکھوں
خود کہیں دور کھڑا ہو کے تماشا دیکھوں
شعر
کچھ بات تو ہے تیری باتوں میں جو بات یہاں تک آ پہنچی
ہم دل سے گئے دل تم پہ گیا اور بات کہاں تک جا پہنچی
ہم دل سے گئے دل تم پہ گیا اور بات کہاں تک جا پہنچی
شعر
یہ جو دل میں قیام کرتے ہیں
یہی جینا حرام کرتے ہیں
یہی جینا حرام کرتے ہیں
شعر
چوم لیتی ہیں لٹک کر کبھی چہرہ کبھی لب
تم نے زلفوں کو بڑا سر پہ چڑھا رکھا ہے
تم نے زلفوں کو بڑا سر پہ چڑھا رکھا ہے
شعر
وہ عکس اپنا آئینے میں دیکھتے ہیں یوں
قاتل کھڑا ہو جس طرح قاتل کے سامنے
قاتل کھڑا ہو جس طرح قاتل کے سامنے
شعر
دشت ویراں میں کہیں کُٹیا بسائے ہوئے لوگ
دیکھ کس حال میں رہتے ہیں ستائے ہوئے لوگ
میں تو ہنس ہنس کہ اسی بات پہ رو دیتا ہوں
مجھ سے روٹھے ہوئے رہتے ہیں منائے ہوئے لوگ
دیکھ کس حال میں رہتے ہیں ستائے ہوئے لوگ
میں تو ہنس ہنس کہ اسی بات پہ رو دیتا ہوں
مجھ سے روٹھے ہوئے رہتے ہیں منائے ہوئے لوگ
شعر
میں نے اُس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
شعر
پاس ہونے سے جدا اچھا ہے
ایسے مانے خفا اچھا ہے
عشق سب لے گیا عقل و خرد
کوئی بتلائے کہ کیا اچھا ہے
ایسے مانے خفا اچھا ہے
عشق سب لے گیا عقل و خرد
کوئی بتلائے کہ کیا اچھا ہے
شعر
محبت مل نہیں سکتی مجھے معلوم ہے صاحب
مگر خاموش رہتا ہوں محبت کر جو بیٹھا ہوں
مگر خاموش رہتا ہوں محبت کر جو بیٹھا ہوں
شعر
اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارا تو میں تمہارا
یا اس پہ مبنی کوئی تاثر کوئی اشارہ تو میں تمہارا
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا
یا اس پہ مبنی کوئی تاثر کوئی اشارہ تو میں تمہارا
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا
شعر
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لُٹا دیتے ہیں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لُٹا دیتے ہیں
شعر
زمانہ بن گیا ہے سارا دشمن محبت کی خطا مہنگی پڑی ہے
جلایا بھی بجھایا بھی اسی نے چراغوں کو ہوا مہنگی پڑی ہے
جلایا بھی بجھایا بھی اسی نے چراغوں کو ہوا مہنگی پڑی ہے
شعر
ہر نسل وراثت میں خزینے نہیں دیتی
اولاد بھی کیا چیز ہے جینے نہیں دیتی
تبدیلیِ حالات نے جینا بھی سکھایا
تبدیلیِ حالات ہی جینے نہیں دیتی
اولاد بھی کیا چیز ہے جینے نہیں دیتی
تبدیلیِ حالات نے جینا بھی سکھایا
تبدیلیِ حالات ہی جینے نہیں دیتی
شعر
اچھی صورت کو سنورنے کی ضرورت کیا ہے
سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے
تم جو آ جاتے ہو مسجد میں ادا کرنے نماز
تم کو معلوم ہے کتنوں کی قضا ہوتی ہے
سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے
تم جو آ جاتے ہو مسجد میں ادا کرنے نماز
تم کو معلوم ہے کتنوں کی قضا ہوتی ہے
شعر
اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کہ عزادار تلک آیا تھا
محسؔن اُس وقت مقدر نے بغاوت کر دی
جب میں اُس شخص کے معیار تلک آیا تھا
زخم خود چل کہ عزادار تلک آیا تھا
محسؔن اُس وقت مقدر نے بغاوت کر دی
جب میں اُس شخص کے معیار تلک آیا تھا
شعر
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
شعر
اذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اتار کر وہ
بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے
بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے
شعر
وہ تیرے پاس سے چپ چاپ گزر کیسے گیا
دل بے تاب قیامت نہ اُٹھا دی تو نے
دل بے تاب قیامت نہ اُٹھا دی تو نے
شعر
روایتوں کو نبھانے کا تھا سلیقہ اُس کو
وہ بے وفائی بھی کرتا رہا وفا کی طرح
وہ بے وفائی بھی کرتا رہا وفا کی طرح
شعر
وہی دن رات ہیں میرے وہی بس خواب ہیں میرے
قیامت سے گزرتا ہوں قیامت سامنے رکھ کر
قیامت سے گزرتا ہوں قیامت سامنے رکھ کر
شعر
وہ اشک بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
شعر
اب ہوائیں خود کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
شعر
اب فیصلہ نصیب پہ چھوڑیں جو ہو سو ہو
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
شعر
حسنِ صورت عارضی ہے حسنِ سیرت مستقل
اُس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اِس سے خوش ہوتا ہے دل
اُس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اِس سے خوش ہوتا ہے دل
شعر
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہو جائے
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہو جائے
No comments:
Post a Comment