ماں کی شان

ماں کی شان

سبھی دکھ مٹاتی ہے ماں ، بہت یاد آتی ہے ماں
میں ہوں کون مجھ کو بتایا تھا ماں نے
مجھے پہلا کلمہ پڑھایا تھا ماں نے
وہ یہ چاہتی تھی کہ میں سیکھ جاؤں
کہ پڑھ پڑھ کے قرآں سنایا تھا ماں نے
خدا سے ملاتی ہے ماں ، بہت یاد آتی ہے ماں
وہ ہاتھوں سے اپنے کھلاتی تھی مجھ کو
کبھی لوریاں بھی سناتی تھی مجھ کو
یہ کہہ کر کے تو تھک گیا میرے بیٹے
کبھی دودھ میٹھا پلاتی تھی مجھ کو
تھپک کر سلاتی ہے ماں ، بہت یاد آتی ہے ماں
وہ بچپن کے دن اب نہیں آنے والے
بہت کھیلتے تھے اندھیرے اجالے
میں اب سوچتا ہوں کہ پیروں میں میرے
وہ ممتا کی زنجیر اب کون ڈالے
گلی سے بلاتی ہے ماں ، بہت یاد آتی ہے ماں
الٰہی قبول اب یہ میری دعا کر
میری نیکیاں میری ماں کو عطا کر
میری ماں کو تو بخش دے میرے مولا
کہ جنت میں رکھنا تو رانی بنا کر
مجھے اب رلاتی ہے ماں ، بہت یاد آتی ہے ماں
وہ ماتھا میرا پیار سے چومتی ہے
کہ اب چاند جیسی بہو ڈھونڈتی ہے
میرے گھر کو جنت بنانے کو ارؔقم
یہاں در بدر کو بہ کو گھومتی ہے
کہ سہرا سجاتی ہے ماں ، بہت یاد آتی ہے ماں

ارؔقم حسن پوری

No comments:

Post a Comment